EN हिंदी
دجلہ کے خواب | شیح شیری
dajla ke KHwab

نظم

دجلہ کے خواب

قمر جمیل

;

یہ ادائیں رقص کے ہنگام کتنی رقص خیز
وہ جوانان قبیلہ ہوش سے باہر چلے

کاکلوں کے سنبلستاں عارضوں پر عکس ریز
جیسے ساحل کا نظارا آب دریا پر چلے

اک تأثر ہے کہ رقصاں ہو رہا ہے ہر طرف
شمعیں روشن ہیں چراغاں ہو رہا ہے ہر طرف

آگ کے اطراف روشن جیسے اک فانوس رقص
رقص کرتی لڑکیاں کچھ آگ کے اطراف یوں

جیسے سطح آب پر مہتاب کے ہالے کا عکس
جس کو جھولے میں جھلائیں موج ہائے سیمگوں

مل کے جب جھکتی ہیں لگتی ہیں کلی منہ بند سی
اور جب تنتی ہیں کس درجہ بھلی دل بند سی

اک طرف وہ سرخ مشعل ہاتھ میں لے کر چلے
کچھ حسیں کچھ نازنیں کچھ سرو قد کچھ سیم تن

جیسے کچھ پھولوں کے نازک نرم رو لشکر چلے
نرم رفتاری میں دجلہ کے تموج کی پھبن

جیسے صحراؤں کے آہو محو گلگشت چمن
یہ حسیں آہو قدم آہو نفس آہو مزاج

لے رہے ہیں نوجوانان قبیلہ سے خراج
جلوہ پیرا جلوہ ساماں کتنے دل کش ماہتاب

کتنے افسانوں کے پیکر کتنے رنگ و بو کے خواب
وہ جبینوں کے عرق میں جیسے شعلوں کے سراب

جیسے صندل میں شراروں کے تبسم محو خواب
شعلہ افشاں کاکلوں میں سرخ پھولوں کے چراغ

جیسے تاریکی میں مل جائیں اجالے کے سراغ
عارضوں کی چاندنی پھیلی ہوئی سی ہر طرف

ہر طرف ہے ایک ترکش ایک آہو ہر قدم
کر رہے ہیں رقص دف پر مہو شان جلوہ تاب

ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں وادیٔ دجلہ کے خواب
کچھ کنول کچھ نسترن کچھ سنبلستاں کچھ گلاب