EN हिंदी
دہشت گرد شاعر | شیح شیری
dahshat-gard shaer

نظم

دہشت گرد شاعر

ذیشان ساحل

;

ایک خوش گوار دن
جب لوگ اپنے دفتر اور بچے

اسکول وقت پر پہنچ جاتے ہیں
دہشت گرد شاعر اپنے خوابوں کی بندوق لے کر

ہوائی فائرنگ شروع کر دیتے ہیں
کوئی ہلاک نہیں ہوتا کوئی زخمی نہیں ہوتا

کسی کو ڈر نہیں لگتا
کسی درخت سے ایک پتا تک نہیں گرتا

کسی کھڑکی کا شیشہ بھی نہیں ٹوٹتا
شاعر اپنا کام جاری رکھتے ہیں مگر

شام ہونے تک کسی دیوار میں ایک سوراخ تک نہیں کر پاتے
کسی دروازے پر نشان بھی نہیں ڈال پاتے

لوگ حسب معمول گھروں کو واپس آتے ہیں
بچے راستوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں لیکن کسی کو

خوابوں کے خالی کارتوس نہیں ملتے
دہشت گرد شاعر کہیں نظر نہیں آتے

جب رات ہوتی ہے تو اچانک اندھیرے میں کبھی
روشنی کی لکیریں آسمان کی طرف جاتی نظر آتی ہیں

اسی معمولی چمک میں ستارے اپنا راستہ بناتے ہیں
اسی راستے پر

دہشت گرد شاعر اپنی بندوق لیے زندگی بھر پریڈ کرتے رہتے ہیں