محبت دائمی سکھ ہے
کہ جس کو موت کی گھڑیاں
کبھی کم کر نہیں سکتیں
یہ موسم اک دفعہ آئے
تو پھر آ کر ٹھہر جائے
حسیں شاداب سی کلیاں
نگاہوں میں سما جائیں
تو پھر یہ مر نہیں سکتیں
خیالوں کی روانی میں
کہ جیسے بہتے پانی میں
کنول کھل جائیں خوابوں کے
تو قدرت مسکراتی ہے
اشارہ کر کے تاروں سے
چھلکتے آبشاروں سے
مدھر سرگوشیاں کر کے
ہمیں رستہ دکھاتی ہے
یہ رستہ کس قدر حیران کن منزل دکھاتا ہے
اسی رستہ پہ انساں خود کو پہلی بار پاتا ہے
محبت کو سزا کہنے سے پہلے سوچ کر رکھنا
کہ جو اس سے بچھڑ جائے اسے منزل نہیں ملتی
بکھر جائیں جو بن کر خاک پھر محفل نہیں ملتی
محبت دائمی سکھ ہے
یہ سکھ میں چاہتی ہوں تیری آنکھوں میں نظر آئے
کہ تو اس کائنات خواب کا ہم راز بن جائے
محبت دائمی سکھ ہے
نظم
دائمی سکھ
شائستہ مفتی