EN हिंदी
دائرے | شیح شیری
daere

نظم

دائرے

شائستہ حبیب

;

اونچے مکانوں کی دیواروں پر ہری بھری پھولوں کی بیل
سرمئی بادلوں کے گھونگھٹ سے میری چھوٹی کھڑکی کی طرف

دیکھتی ہے
پرسیوایڈرس ٹی وی پر فلم چل رہی ہے

میں کس کے تعاقب میں اپنی طرف بھاگ رہی ہوں
میں کولہو کا بیل ہوں

روز ایک دائرہ اپنے ارد گرد کھینچتی ہوں اور اس دائرے
کے آگے ایک اور دائرہ پھر ایک اور

یوں آگے ہی آگے دائرے ہی دائرے
زندگی کا سفر دائروں سے لکھا گیا

صبح دوپہر شام آنسو کی روٹی دکھ کا سالن اور
سرد آہوں کا پانی

برساتوں کی شامیں نرمل کومل دل کو یوں دہلاتی ہیں
جیسے آتش دان کی قریب سوئی بلی انجانے قدموں سے چونک جائے

یہ بھی ایک دائرہ ہے
اس دائرے کے اندر ہمارے ہتھیار زمین پر پڑتے ہیں

اور ہم ہاتھ اٹھائے آسمانی آواز پر
آگے ہی آگے بے سمت چلتے جا رہے ہیں

دائرے بنتے جا رہے ہیں