EN हिंदी
داد گر | شیح شیری
dad-gar

نظم

داد گر

عزیز قیسی

;

میں جانتا ہوں کہ آنسو فنا کا لمحہ ہے
اسے تری نگۂ جاوداں سے ربط نہیں

میں جانتا ہوں کہ تو بھی شکار دوراں ہے
متاع جاں کے سوا اس قمار خانے میں

ہر ایک نقد نفس ہار کر پشیماں ہے
مگر یہ ربط ہے کیسا یہ کیا تعلق ہے

کہ جب بھی ہار کے اٹھا جہاں کی محفل سے
امنگ ہنس کے کلیجے پہ چوٹ کھانے کی

ہجوم دشنہ و خنجر میں مسکرانے کی
امنگ داؤ پہ جان حزیں لگانے کی

نہ جانے کیوں مرے دل میں خیال آیا ہے
کہ جا کے تجھ سے شکایت کروں زمانے کی