بس اتنی روداد ہے میری
عشق میں خانہ خراب ہوا میں
ان کی آنکھوں کا تھا اشارہ
وقف جام و شراب ہوا میں
ظلمت شام الم کم کرنے
اپنے ہی گھر میں آگ لگا دی
میں نے کفر جنوں کے ہاتھوں
مملکت کونین گنوا دی
درس وفا کو شہرت دے دی
محفل محفل غزل سنا کر
زخموں کے گلدستے بیچے
گلی گلی آواز لگا کر
دیس دیس پھیلائی کہانی
اپنی وفا کی ان کی جفا کی
دھجی دھجی رسوا کر دی
اپنے گریباں ان کی قبا کی
دل کے لہو سے کتنے آنسو
چمکا چمکا کر چھلکائے
ریزہ ریزہ کانچ کے سپنے
لیے پھرا پلکوں پہ اٹھائے
کبھی تو خود رویا محفل میں
کبھی انہیں خلوت میں رلایا
ان کی اک اک یاد کو سمجھا
روح و دل و جاں کا سرمایہ
ان سے جو غم ملا اس غم کو
اک سوغات وفا ٹھہرایا
دنیا کی اک اک الجھن کو
ان کی زلفوں سے الجھایا
ان کی قامت کا افسانہ
دار تلک میں نے پہنچایا
ان کے لیے سو جان سے میں نے
موت کو اپنے گلے لگایا
ہر اک سر کو ان کا سودا
ہر اک شوق کو وحشت دے دی
ہر اک دل کو ان کی تمنا
ہر سینے کو حسرت دے دی
بس اتنی روداد ہے میری
عشق میں خانہ خراب ہوا میں
کسی شہر میں کسی حجر میں
فرش زمیں پر عرش بریں پر
کسی ستارے کسی قمر میں
عالم ارض و سما میں کہیں پر
کاش کوئی وہ ہستی ہوتی
جس کو یہ روداد سناتا
بوجھ گناہوں کا ہے دل پر
آج کی شب ہلکا ہو جاتا
اس سے کاش یہ کہہ سکتا میں
عالم کل تجھ سے کیا پردا
کذب مکمل ہے یہ کہانی
یہ سارا افسانہ جھوٹا
میں نے خود ہی تراشا یہ بت
اور اس بت کو خدائی دے دی
مجھ کو بھی اس پر سچ کا گماں ہے
جھوٹ کو وہ رعنائی دے دی
آئنہ خانوں میں رنگوں کے
اپنی ہی صورت کو سراہا
اپنی ہی تخلیق کو پوجا
اپنی ہی تلبیس کو چاہا
دل کے محرم روح کے شاہد!
جھوٹ اور سچ پہچاننے والے
میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں ہے
میری حقیقت جاننے والے!
میرے خیر و شر کے محاسب
تجھ پر تو سب کچھ روشن ہے
میری سزا جزا کے مالک
میرا جرم یہ میرا فن ہے
اپنی تمنا کا ملزم ہوں!
میں ان خوابوں کا مجرم ہوں!
نظم
کنفشن
عزیز قیسی