دن بھر کافی ہاؤس میں بیٹھے کچھ دبلے پتلے نقاد
بحث یہی کرتے رہتے ہیں سست ادب کی ہے رفتار
صرف ادب کے غم میں غلطاں چلنے پھرنے سے لاچار
چہروں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے برسوں کے بیمار
اردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر میرؔ و غالبؔ آدھا جوشؔ
یا اک آدھ کسی کا مصرعہ یا اقبالؔ کے چند اشعار
یا پھر نظم ہے اک چوہے پر حامد مدنیؔ کا شہکار
کوئی نہیں ہے اچھا شاعر کوئی نہیں افسانہ نگار
منٹوؔ کرشنؔ ندیمؔ اور بیدیؔ ان میں جان تو ہے لیکن
عیب یہ ہے ان کے ہاتھوں میں کند زباں کی ہے تلوار
عالؔی افسر انشاؔ بابو ناصرؔ میرؔ کے بر خوردار
فیضؔ نے جو اب تک لکھا ہے کیا لکھا ہے سب بیکار
ان کو ادب کی صحت کا غم مجھ کو ان کی صحت کا
یہ بے چارے دکھ کے مارے جینے سے ہیں کیوں بے زار
حسن سے وحشت عشق سے نفرت اپنی ہی صورت سے پیار
خندۂ گل پر ایک تبسم گریۂ شبنم سے انکار
نظم
کافی ہاؤس
حبیب جالب