EN हिंदी
کلرک | شیح شیری
clerk

نظم

کلرک

سید محمد جعفری

;

خالق نے جب ازل میں بنایا کلرک کو
لوح و قلم کا جلوہ دکھایا کلرک کو

کرسی پہ پھر اٹھایا بٹھایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پن سے لگایا کلرک کو

مٹی گدھے کی ڈال کر اس کی سرشت میں
داخل مشقتوں کو کیا سر نوشت میں

چپراسی ساتھ خلد میں جب لے گیا اسے
حوروں نے کچھ مذاق کیے کچھ ملک ہنسے

ہاتف کی دفعتاً یہ صدا آئی غیب سے
''دیکھو اسے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہے''

آدم کا رف ڈرافٹ ہے کب تک ہنسو گے تم
اپروو ہو کر آیا تو سجدہ کرو گے تم

جنت میں فائلیں ہیں نہ ہے کوئی ڈائری
حوریں تو جانتی ہیں فقط طرز دلبری

غلماں سے کچھ کہو تو سنائے کھری کھری
یہ انتظام ہے یہ ڈسپلن ہے دفتری

میں سوچتا ہوں کیا کروں ایسی بہشت کو
''ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو''

خلد بریں کو ناز تھا اپنے مکین پر
اور یہ بھی تھے مٹے ہوئے اک حور عین پر

لالچ کی مہر کندہ تھی دل کے نگین پر
ٹی اے وصول کرنے کو اترا زمین پر

ابلیس راستے میں ملا کچھ سکھا دیا
اترا فلک سے تھرڈ میں انٹر لکھا دیا

رکھا قدم کلرک نے جس دم زمین پر
دیکھا ہر ایک چیز ہے قدرت کے دین پر

بولا کہ میں تو زندہ رہوں گا روٹین پر
مجھ پر مشین ہوگی میں ہوں گا مشین پر

اس آہنی صنم کی عبادت ہے مجھ پہ فرض
نوکر ہوں بادشاہ کا جیتا ہوں لے کے قرض

اے سیکرٹریٹ کی عمارت ذرا بتا
اس وقت جبکہ جاتے ہیں افسر بھی بوکھلا

ہوتا ہے کون کشتیٔ فائل کا ناخدا
افسر نہیں ہیں اس کی حقیقت سے آشنا

پر ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان ہیں کلرک
دریائے ریڈ ٹیپ کا طوفان ہیں کلرک