دروازۂ جاں سے ہو کر
چپکے سے ادھر آ جاؤ
اس برف بھری بوری کو
پیچھے کی طرف سرکاؤ
ہر گھاؤ پہ بوسے چھڑکو
ہر زخم کو تم سہلاؤ
میں تاروں کی اس شب کو
تقسیم کروں یوں سب کو
جاگیر ہو جیسے میری
یہ عرض نہ تم ٹھکراؤ
چپکے سے ادھر آ جاؤ

نظم
چپکے سے ادھر آ جاؤ
شہریار