تو نے سرد ہواؤں کی زباں سیکھی ہے
تیرے ٹھنڈے لمس سے دھڑکنیں یخ بستہ ہوئیں اور میں چپ ہوں
میں نے وقت صبح چڑیوں کی سریلی چہچہاہٹ کو سنا ہے
اور میرے ذہن کے ساگر میں نغمے بلبلے بن کر اٹھے ہیں
تیرے کڑوے بول سے ہر سو ہیں آوازوں کے لاشے
اور میں چپ ہوں
میں نے وہ معصوم پیارے گل بدن دیکھے ہیں
جن کے مرمریں جسموں میں پاکیزہ محبت کے نشیمن ہیں
ترے ان کھردرے ہاتھوں نے یہ سارے نشیمن نوچ ڈالے
اور میں چپ ہوں
میں نے دیکھے ہیں وہ چہرے چاند جیسے غنچہ صورت
جن کی آنکھیں آئنہ ہیں آنے والے موسموں کا
تو نے ان آنکھوں میں بھی کانٹے چبھوئے
اور میں چپ ہوں
با کمال و با صفا وہ لوگ بھی دیکھے ہیں میں نے
جن کے ہونٹوں سے کھلے ہیں صدق و دانائی کے پھول
تو نے ان ہونٹوں کو گھولا زہر میں
اور میں چپ ہوں
نظم
چپ
اعجاز فاروقی