یہاں ہارن بجانے کی اجازت نہیں
اور میں نے تمنا کا بھرم کھول دیا ہے کہ سمندر کی ہوا
سینے سے ٹکرائے تو پردہ نہ رہے
اس کی مہک سر پہ کفن باندھ کے نکلی ہے
ہر اک راستے ہر موڑ پہ آواز لگاتی ہے
مگر کوئی نہیں رکتا بسنت آئی ہے
سب بھاگ رہے ہیں کوئی آواز نہیں دیتا
کوئی مڑ کے نہیں دیکھتا
پٹرول لہو اور ہوا دست و گریباں ہیں
جدھر دیکھو پتنگیں ہی پتنگیں ہیں
زمینوں پہ اترنے کے لئے ڈولتی پر تولتی
بل کھاتی ہوئی
صبح کو کٹتی ہیں مگر شام کو سڑکوں پہ اترتی ہیں
تو وہ کون ہے جو
آنکھوں کے سائے سے گریزاں ہیں
مگر صبح ہی صبح چپکے سے سو سیڑھیاں
چڑھ جاتا ہے تھکتا ہی نہیں
اور نئی آگ دہکتی ہے
نئے رنگے ہوئے کاغذوں سے حشر چمک اٹھتا ہے
سب عورتیں اور مرد جواں لڑکیاں اور لڑکے
نئی ٹیکسیاں اور موٹریں اور رکشے
انہیں لوٹنے نکلے ہیں بسنت آئی ہے
آ جاؤ یہاں لوٹ مچی ہے آؤ
در و دیوار کو حسرت کی نظر دیکھنا مت بھولنا
اک دوسرے کو روندتے
اک دوسرے کو خون میں بھیگے ہوئے
سر پیٹتے اور چیختے چلاتے سبھی بھاگ رہے ہیں
کوئی آواز نہیں دیتا
یہاں ماؤں اور بہنوں سے اور بیویوں سے
آخری بوسوں کی اجازت ہے
مگر ہارن بجانے کی اجازت نہیں
نظم
چپ چاپ گزر جاؤ
عباس اطہر