رات کی کالی بارش نے
چہروں کی وردی
کیچڑ سے بھر دی ہے
میرے سینے کے پنجرے میں
خون کا گردش کرنے والا لٹو
نفرت کے پودوں کے اوپر
گھوم رہا ہے
تم نے ایسے کانٹے
میری شریانوں میں بوئے ہیں
ایسی دوپہروں کی زردی
میرے گالوں پہ لیپی ہے
کہ میں بستر کی شکنوں میں
اپنی آنکھیں بو کر روتا ہوں
پہلی بار جب غم کی پتلی قاش کو
چہرے سے نوچا تھا
جب غربت کے اوراق
ہوا میں اڑتے تھے
جب خالی معدے کی تصویر بنا کر
اس میں چیزیں رکھتا تھا
پھٹے ہوئے کپڑوں میں جب
تصویر چھپا کر رکھتا تھا
میری شہوت
کنوار پنے کی دہلیزوں پر
اپنا خطبہ لکھتی تھی
بیس برس ان گلیوں کی دیواروں سے
ٹکرا ٹکرا کر
میرے کندھے ریت کے پشتے بن کر
ڈھیتے جاتے ہیں
میں جو تیری رانوں کے جنگل میں
کالے پھول کو توڑنے نکلا تھا
اب دیکھ رہا ہوں
دل کی کوری مٹی میں
تیرے جسم کی پتلی شاخیں اگی ہوئی تھیں
اور اک آوارہ سناٹا
چھتوں پر بھاری قدموں سے
بڑی آہستگی کے ساتھ چلتا ہے
تو وہ چپکے سے میرے پاس آتی ہے
اور اپنے دھیمے لہجے میں
وہ ساری داستانیں کہہ سناتی ہے
جنہیں سن کر میں دھیمی آنچ پر
پہروں سلگتا ہوں
کسی گرجے کے ویراں لان میں
جب جنوری
اپنے سنہری گیسوؤں کو کھول کر
کوئی پرانا گیت گاتی ہے
تو وہ اک ان چھوئی نن کی طرح
پتھر کے بینچوں پر
مرے کاندھے پر سر رکھے
مرے چہرے پہ اپنی انگلیوں میں
کبھی جب شام روتی ہے
سیہ کافی کے پیالوں سے
لپکتی بھاپ میں
پھر آندھی کی آمد سے ایسی گرد ہوئی
ایسا حبس مری سانسوں میں پھیلا
تیرے جسم کی کشتی میں
میں اپنے کپڑے بھول آیا
پر تم نے آدھی رات کو ایسی چٹکی لی
نیند کی ڈھولک
گھٹنوں کی ضربوں سے چکناچور ہوئی
اب منہ سے شیرہ بہتا ہے
ان زخموں کا
جن کے ٹانکے اندر ہی اندر ٹوٹے ہیں
بجلی کی تاروں کے اوپر
کوے قطار میں بیٹھے ہیں
بارش کے پانی میں جن کے
عسکری بازو ہلتے ہیں
رانوں کی یہ نیلی وریدیں
جن میں دعا کا نقشی کوزہ
الٹ گیا ہے
میں نے ان گلیوں میں
اپنے مرنے کی افواہ سنی ہے
خوش الحان موذن کی
آواز سے چڑیاں اڑتی ہیں
اے رستوں کی رادھا
تیرے وصل کی خاطر
جسم کے نجی حصے دھو کر
لوٹ کے پھر میں آیا ہوں
میرے بدن پہ
صبر کے نیلے دھبے ہیں
پشت پہ
ہم جنسی کے آنسو ہیں
نیم کے پیڑ کے ڈنٹھل ہیں
جو میری کمر میں بوئے ہیں
کچنار کے سوکھے پتے ہیں
میں جن کو پکا کر کھاتا ہوں
چار دہائیوں سے میں گندے
پرنالے کے نیچے استادہ ہوں
سمجھ رہا ہوں
چپ کی بارش کا یہ میلا پانی ہے
یہ پانی جو سینے کے بالوں سے گر کر
فوطوں کو تر کرتا ہے
ڈول میں بھر کر
شور آلود زمیں پر
گرتا جاتا ہے
میری چپ نے
رستوں کو پامال کیا ہے
میری چپ نے سانپ کی کنڈلی میں سے
زہر نچوڑا ہے
مجھ کو اپنے کندھوں کے
زیریں حصوں کے حملے سے
بے قوت کر ڈالا ہے
نظم
چپ
عبد الرشید