سن
مجھے تیرے لقمے کی
تھالی کی
حرص و ہوس کی قسم
یہ مرا رزق تھا
ذائقہ جس کا تیری زباں نے چکھا
کیا بتاؤں تجھے
میں کڑکتی ہوئی دھوپ میں پا برہنہ کہاں تک چلی
میں نے کتنے کڑے کوس کاٹے تو دو گھونٹ پانی ملا
کیسے میرا لہو
پانی ہو کے مساموں سے بہتا رہا
اور میں ڈھوتی رہی رنج کی گٹھریاں
کیا کہوں
کس مشقت نے ہاتھوں کو زخم اور پیروں کو چھالوں کا تحفہ دیا
یہ مری محنتوں کی کمائی تھی
جو تیری تھالی میں ہے
سن
مجھے میری فاقہ کشی کی قسم
نظم
چوری کی بھوک
حمیدہ شاہین