دھوپ دیوار سے رینگتے رینگتے
چارپائی کے نیچے
لٹکتے ہوئے پاؤں پر آ کے ڈسنے لگی!
کھیلتے کھیلتے
منی چلائی روئی پھر ہنسے لگی
چیل کا سایا
آنگن سے
دیوار سے
چھت سے ہوتا ہوا
پاس والی گلی میں کہیں گر گیا!
اور میں دھوپ میں
جھولتی چارپائی پر لیٹا ہوا
الگنی پر لٹکتی
پھٹی پینٹ کی خالی جیبوں کو تکتا رہا!
پینٹ کی خالی جیبوں سے پانی ٹپکتا رہا!
دھوپ کا زہر
پیروں سے ہوتا ہوا
دل کی جانب لپکتا رہا!
چیل کا سایا
سارے بدن میں بھٹکتا رہا!!

نظم
چیل کا سایا
محمد علوی