EN हिंदी
چھٹی کا دن | شیح شیری
chhuTTi ka din

نظم

چھٹی کا دن

اصغر ندیم سید

;

اگر رات اور صبح میں فرق کوئی نہیں ہے
ہوا میں پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پر

بکھرنے لگے ہیں
زمینوں پہ احکام کے لمبے چابک سے

تاریخ داں اپنی گردن جھکائے ہوئے ہیں
نصیبوں کی آواز میں وقت ڈھلنے لگا ہے

تو پھر!
نظم لکھنے کی خواہش

گنہ گار انصاف کے فیصلوں سے زیادہ بری تو نہیں ہے
اگر موسموں کی رگوں میں لہو جم گیا ہے

شکاری کی آنکھوں میں بارود جلنے لگا ہے
دنوں کے تموج میں

سورج کا چہرہ اترنے لگا ہے
تو پھر

سانس لینے کی خواہش
نقب زن کی دھمکی سے زیادہ بری تو نہیں ہے

مجھے نظم لکھنے دو
اور سانس لینے دو

کچھ دیر اپنی کمانوں کو نیچا کرو
آج چھٹی کا دن ہے