مختصر کمرے کی
ایک چھوٹی سی مغموم کھڑکی
کبھی دیکھتی ہے جو باہر کی دنیا
اداسی بہت بڑھ جاتی ہے اس کی
مگر سامنے کے ہرے لان کے پھول
چمپا چمیلی گلاب اور بیلا کی پوشاک
پہنے ہوئے مسکراتے ہوئے
رنگ و خوشبو کے لہجے میں اس کو
سناتے ہیں معصوم لمحوں کا قصہ
ہتھیلی پہ پھر انہی معصوم لمحوں کی
تحریر کرتی ہے دل کش ہنسی
ایک چہکار کوئل کی
اور جب محبت کی انگلی نزاکت سے تھامے
خراماں خراماں
انوکھا سا اک پھول اس لان پر
میرؔ کے شعر کہ پنکھڑی چننے لگتا ہے
تب وقت کے قہقہوں کا
بہت خوشنما سلسلہ
ٹھہر جاتا ہے
اس مختصر کمرے کی
چھوٹی سی کھڑکی میں
نظم
چھوٹی سی کھڑکی
جعفر ساہنی