یہ مرا شہر ہے
خوبصورت حسیں
چاندنی کا نگر دھوپ کی سرزمیں
شہر کے روز و شب میری آنکھیں
جس طرح پتلیاں اور سفیدی
میں ان آنکھوں سے سب منظر رنگ و بو دیکھتا ہوں
راستہ راستہ کو بہ کو دیکھتا ہوں
میں کہ شب گرد شاعر
چاند سے باتیں کرتے ہوئے چل پڑا تھا
ایک بستی ملی
ملگجے اور سیہ جھونپڑے چار سو
جھونپڑے جن کی شمعوں میں سانسیں نہ تھیں
زرد بیمار اجالے
راکھ اور گندگی
اک عفونت کا انبار
زندگی جیسے شرما رہی تھی
مری جانب کہیں دور سے ایک سایہ بڑھا
میں نے پوچھا کہ تم کون ہو
وہ یہ کہنے لگا
میں کہ ظلمت ہوں تم روشنی دو مجھے
میں جہالت ہوں تم آگہی دو مجھے
میں نجاست ہوں پاکیزگی دو مجھے
لو سنو اور دیکھو مجھے
میں چھٹا آدمی ہوں بچا لو مجھے
میں چھٹا آدمی ہوں بچا لو مجھے
نظم
چھٹا آدمی
شاذ تمکنت