EN हिंदी
چشم سوال! | شیح شیری
chashm-e-sawal!

نظم

چشم سوال!

معین احسن جذبی

;

ہاں اے غریب لڑکی تو بھیک مانگتی ہے
چشم سوال تیری کچھ کہہ کے جھک گئی ہے

تو بھیک مانگتی ہے شرم و حیا کی ماری
اور سر سے لے کے پا تک ہے کپکپی سی طاری

آنکھوں میں ہے نمی سی آئینہ سی جبیں ہے
تجھ کو گداگری کی عادت ابھی نہیں ہے

قسمت میں گیسوؤں کی آئینہ ہے نہ شانہ
شاید تری نظر میں تاریک ہے زمانہ

یہ تیرا جسم نازک بوسیدہ پیرہن میں
جیسے گل فسردہ اجڑے ہوئے چمن میں

جھک جائیں تیرے آگے شیطان کی نگاہیں
پر کھا رہی ہیں تجھ کو انسان کی نگاہیں

پاکیزگی پہ تیری سیتا کو پیار آئے
معصومیت پہ تجھ کو مریم گلے لگائے

حوریں لپک کے چومیں، پائیں قدم جو تیرے
ہر نقش پا پہ تیرے سجدے کریں فرشتے

اے کاش وہ بتائے ہے جس کی یہ خدائی
یہ چشم نرگسی ہے یا کاسۂ گدائی!

لب ہیں کہ پتھروں کے ٹکڑے جمے ہوئے ہیں!
رخ ہیں کہ رہ گزر کے بجھتے ہوئے دئیے ہیں!