چشم بے خواب کو سامان بہت!
رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی چکراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
درد کا نام سماعت کے لیے راحت جاں
دست بے مایہ کو زر
نطق خاموش کو لفظ
خواب بے در کو مکاں
درد کا نام مرے شہر خواہش کا نشاں
منزل ریگ رواں
درد کی راہ پہ تسکین کے امکان بہت!
ہجر کا درد کٹھن ہے پھر بھی
وہ بھی اس روز بچھڑ کر مجھ سے
خوش تو نہ تھی
اس نے یہ منزل غم
کس طرح کاٹی ہوگی
وہ بھی تو میری طرح ہوگی پریشان بہت
(درد کی راہ میں تسکین کے سامان بہت)
کیا خبر اس کی سماعت کے لیے
درد کا نام بھلا ہو کہ نہ ہو
شہر خواہش کا نشاں
نطق خاموش کا اظہار ہوا ہو کہ نہ ہو
دست بے مایہ کا زر (وہ تہی دست نہ تھی)
ہجر کا درد بنا ہو کہ نہ ہو
اس کی گلیوں میں رواں دستکیں دیتی ہوئی سرخ ہوا ہو کہ نہ ہو
عشق نوخیز کے ارمان بہت
شوق گل رنگ کے رستے میں بیابان بہت
سوختہ جان بہت
چشم بے خواب کو سامان بہت
نظم
چشم بے خواب کو سامان بہت
امجد اسلام امجد