EN हिंदी
چرواہے کا جواب | شیح شیری
charwahe ka jawab

نظم

چرواہے کا جواب

علی اکبر ناطق

;

آگ برابر پھینک رہا تھا سورج دھرتی والوں پر
تپتی زمیں پر لو کے بگولے خاک اڑاتے پھرتے تھے

نہر کنارے اجڑے اجڑے پیڑ کھڑے تھے کیکر کے
جن پر دھوپ ہنسا کرتی ہے ویسے ان کے سائے تھے

اک چرواہا بھیڑیں لے کر جن کے نیچے بیٹھا تھا
سر پر میلا صافا تھا اور کلہاڑی تھی ہاتھوں میں

چلتے چلتے چرواہے سے میں نے اتنا پوچھ لیا
اے بھیڑوں کے رکھوالے کیا لوگ یہاں کے دانا ہیں

کیا یہ سچ ہے یاں کا حاکم نیک بہت اور عادل ہے
سر کو جھکا کر دھندلی آنکھوں والا دھیمے سے بولا

بادل کم کم آتے ہیں اور بارش کب سے روٹھی ہے
نہریں بند پڑی ہیں جب سے ساری دھرتی سوکھی ہے

کچھ سالوں سے کیکر پر بھی پھلیاں کم ہی لگتی ہیں
میری بھیڑیں پیاسی بھی ہیں میری بھیڑیں بھوکی ہیں