EN हिंदी
چراغاں | شیح شیری
charaghan

نظم

چراغاں

کیفی اعظمی

;

ایک دو ہی نہیں چھبیس دیے
ایک اک کر کے جلائے میں نے

ایک دیا نام کا آزادی کے
اس نے جلتے ہوئے ہونٹوں سے کہا

چاہے جس ملک سے گیہوں مانگو
ہاتھ پھیلانے کی آزادی ہے

اک دیا نام کا خوشحالی کے
اس کے جلتے ہی یہ معلوم ہوا

کتنی بدحالی ہے
پیٹ خالی ہے مرا جیب مری خالی ہے

اک دیا نام کا یکجہتی کے
روشنی اس کی جہاں تک پہنچی

قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا
ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند

سب کو اک ساتھ ادھڑتے دیکھا
دور سے بیوی نے جھلا کے کہا

تیل مہنگا بھی ہے ملتا بھی نہیں
کیوں دیے اتنے جلا رکھے ہیں

اپنے گھر میں نہ جھروکہ نہ منڈیر
طاق سپنوں کے سجا رکھے ہیں

آیا غصے کا اک ایسا جھونکا
بجھ گئے سارے دیے

ہاں مگر ایک دیا نام ہے جس کا امید
جھلملاتا ہی چلا جاتا ہے