خلاؤں میں تیرتے جزیروں پہ چمپئی دھوپ
دیکھ کیسے برس رہی ہے!
مہین کہرا سمٹ رہا ہے
ہتھیلیوں میں ابھی تلک
تیرے نرم چہرے کا لمس ایسے چھلک رہا ہے
کہ جیسے صبح کو اوک میں بھر لیا ہو میں نے
بس ایک مدھم سی روشنی
میرے ہاتھوں پیروں میں بہہ رہی ہے
ترے لبوں پہ زبان رکھ کر
میں نور کا وہ حسین قطرہ بھی پی گیا ہوں
جو تیری اجلی دھلی ہوئی روح سے پھسل کر ترے لبوں پر
ٹھہر گیا تھا
نظم
چمپئی دھوپ
گلزار