پرندہ تو نہیں ہوں
پھر بھی شہپر کا عذاب
اپنے طوافوں میں سمیٹے
بن رہا ہوں ہندسہ بے خواب راتوں کا
کہ نابینا جہانوں میں
بصارت کو سماعت میں پرو کر جاگتا ہوں میں
بدن کو دائروں کی زد پہ کھو کر جاگتا ہوں میں
مرے چہرے میں دوزخ کے شراروں کا بسیرا ہے
مری آواز نے اپنی عمودی گونج پھیلا کر
تمہارے گنبد و محراب کی تنہائی توڑی ہے
پرندہ تو نہیں ہوں
پھر بھی لا یعنی پروں کو تولتا رہتا ہوں
اک بے نام گردش میں
بکھرتی شام کی پرچھائیں سے ایجاد ہے میری
فلک بنیاد ہے میری
اضافی آسمانوں میں مقید پاؤں ہیں میرے
مرے قدموں میں جنت ہے
نظم
چمگادڑ
ریاض لطیف