تمہیں خواہش کو چھونے کی تمنا ہے
خواہشیں تو اڑتی پھرتی تتلیاں ہیں
ڈاک کی ناکارہ ٹکٹیں تو نہیں ہیں
جنہیں البم میں رکھ کر تم یہ سمجھو
کہ یہ نایاب چیزیں اب تمہاری دسترس میں ہیں
تمہیں سپنے پکڑنے کی تمنا ہے
نہیں یہ غیر ممکن ہے
کہ سپنے ان چھوئے لمحوں کے نازک عکس ہیں
آرائشی بیلیں نہیں
جو کمرے کی کسی دیوار پر سج کر
تمہاری دید کا احساں اٹھائیں
تمہیں کہرے کے بھیگے پھول چننے کی تمنا ہے
یہ کہرا تو چراغ موسم گل کا دھواں ہے
کوئی دیوار برلن پر کھنچی تحریر یا نقشہ نہیں
جسے جس وقت جو چاہے بدل دے
یا مٹا دے
سبز رو کہرا پکڑنا اس قدر آساں نہیں
سنو
دیوانگی چھوڑو
چلو واپس حقیقت میں چلیں
نظم
چلو واپس چلیں
حامد یزدانی