چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
خمار وصل تپتی دھوپ کے سینے پہ اڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
غبار ہجر صحرا میں سرابوں سے اٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گی
چلو چھوڑو
وہ سارے خواب کچی بھربھری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہاری انگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں مرا لیکن
تمہاری انگلیاں تو عادتاً یہ جرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں صدیوں سے
چلو چھوڑو
مرا ہونا نہ ہونا اک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اک نیا موسم اترنے دو
مرے خوابوں کو مرنے دو
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
مرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
مری یادوں سے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
نظم
چلو چھوڑو
محسن نقوی