EN हिंदी
چل چلاؤ | شیح شیری
chal-chalaw

نظم

چل چلاؤ

میراجی

;

بس دیکھا اور پھر بھول گئے
جب حسن نگاہوں میں آیا

من ساگر میں طوفان اٹھا
طوفان کو چنچل دیکھ ڈری آکاش کی گنگا دودھ بھری

اور چاند چھپا تارے سوئے طوفان مٹا ہر بات گئی
دل بھول گیا پہلی پوجا من مندر کی مورت ٹوٹی

دن لایا باتیں انجانی پھر دن بھی نیا اور رات نئی
پیتم بھی نئی پریمی بھی نیا سکھ سیج نئی ہر بات نئی

اک پل کو آئی نگاہوں میں جھلمل کرتی پہلی
سندرتا اور پھر بھول گئے

مت جانو ہمیں تم ہرجائی
ہرجائی کیوں کیسے کیسے

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی
جو بات ہو دل کی آنکھوں کی

تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو
جتنی بھی جہاں ہو جلوہ گری اس سے دل کو گرمانے دو

جب تک ہے زمیں
جب تک ہے زماں

یہ حسن و نمائش جاری ہے
اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو

ہم اس دنیا کے مسافر ہیں
اور قافلہ ہے ہر آن رواں

ہر بستی ہر جنگل صحرا اور روپ منوہر پربت کا
اک لمحہ من کو لبھائے گا اک لمحہ نظر میں آئے گا

ہر منظر ہر انساں کی دیا اور میٹھا جادو عورت کا
اک پل کو ہمارے بس میں ہے پل بیتا سب مٹ جائے گا

اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو
تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی
ہے چاند فلک پر اک لمحہ

اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں
اور عمر کا عرصہ بھی سوچو اک لمحہ ہے