بچپن کی گلیوں میں جن جن گھروں کے شیشے میری گیند سے ٹوٹے تھے
ان سب کی کرچیں کبھی کبھی میری آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں
جلتی دوپہروں میں میرے ہاتھوں اجڑے ہوئے گھونسلوں کے بے حال پرندوں کی
چیخیں فریادیں میری بے گھر شاموں میں کہرام مچاتی رہتی ہیں
چکناچور دنوں ریزہ ریزہ راتوں میں سوئے ہوئے سب خواب جگاتی رہتی ہیں
اپنے خنجر اپنے ہی سینے میں اترنے لگتے ہیں
زندہ چہرے جلتے بجھتے لمحوں کی آغوش میں مرنے لگتے ہیں
نظم
چک پھیری
افتخار عارف