EN हिंदी
چیت کا پھول | شیح شیری
chait ka phul

نظم

چیت کا پھول

اقتدار جاوید

;

میں چیت کا پھول ہوں
اور

عاکف ہوں مٹی کے نیچے
یہ چلہ کشی ہے

کسی اور ہیئت میں ڈھلنے کی
چالیس راتوں کا چلا ہے

بھاری کناروں کا تلا ہے
دریا سے اڑتی ہوا

اپنی لہروں بھری شال پھیلائے
بوڑھا فلک تھوڑے آنسو بہائے

سیہ ابر پلکوں کی جھالر اٹھائے
چمکتی ہوئی دھوپ آخر میں آئے

مطلا بدن کو بچھائے
پہاڑوں کے قدموں سے

لمبے سمندر کی وسعت بھری سرحدوں تک!
زمیں اک بڑی سیپ ہے

بیچ بارش کا وحدانیت سے لبالب بھرا
ایک قطرہ ہے

جو سیپ میں گرتا ہے
اور موتی میں ڈھلتا ہے

حرفوں کے
کون ایسے جملے بناتا ہے

جملے میں
اک کوڈ کی طرح

معنی چھپاتا ہے
عشرے گزرتے ہیں

اک نسل آتی ہے
معنی کو

جملے کی زنجیر سے آ کے آزاد کرتی ہے
معنی بھرے چیت کا پھول ہے

چیت کے پھول کا
اور تری انگلیوں کا

ہزاروں برس کا پرانا تعلق ہے
میں چیت کا پھول ہوں

اور معلق پڑا ہوں
کسی درمیانی زمانے میں

پہنچوں گا
برفیلے رستے سے ہوتا

خنک رت میں
خوشبو بھرے پھول کی میٹھی مٹھی

کی تحویل سے ہوتا
اپنے ابد سے

پرانے ٹھکانے میں!!