EN हिंदी
چڑھا دیا ہے بھگت سنگھ کو رات پھانسی پر | شیح شیری
chaDha diya hai bhagat-singh ko raat phansi par

نظم

چڑھا دیا ہے بھگت سنگھ کو رات پھانسی پر

آفتاب رئیس پانی پتی

;

گری ہے برق تپاں دل پہ یہ خبر سن کر
چڑھا دیا ہے بھگت سنگھ کو رات پھانسی پر

اٹھا ہے نالۂ پر درد سے نیا محشر
جگر پہ مادر بھارت کے چل گئے خنجر

شکستہ حال ہوا قوم کے حبیبوں کا
بدن میں خشک لہو ہو گیا غریبوں کا

ابھی تو قوم نے نہروؔ کا غم اٹھایا تھا
ابھی تو داس کی فرقت نے حشر ڈھایا تھا

ابھی تو ہجر کا بسمل کے زخم کھایا تھا
ابھی تو کوہ ستم چرخ نے گرایا تھا

چلے ہیں ناوک بیداد پھر کلیجوں پر
کہ آج اٹھ گئے افسوس نوجواں رہبر

عدو وطن کو تشدد سے کیا دبائیں گے
وہ اپنے ہاتھ سے فتنے نئے جگائیں گے

جو ملک و قوم کی دیوی پہ سر چڑھائیں گے
نثار ہو کے شہیدوں میں نام پائیں گے

گرے گا قطرۂ خوں بھی جہاں سپوتوں کا
فدائے ہند وہاں ہوں گے سینکڑوں پیدا

جہاں سے ملک عدم نونہال جاتے ہیں
نمایاں کر کے ستم کش کا حال جاتے ہیں

گرا کے ہند میں کوہ ملال جاتے ہیں
وطن کو چھوڑ کے بھارت کے لال جاتے ہیں

تڑپ رہے ہیں جدائی میں بے قرار وطن
چلے ہیں عالم بالا کو جاں نثار وطن