اور میں چاندنی رات میں سو گیا
دیکھتا کیا ہوں
پھیلی ہوئی چاندنی کے کنارے کنارے
کئی برق رفتار پرچھائیاں
جانے کب سے تعاقب کناں
سمت نا آشنا کی طرف ہیں رواں
اور میں آہستہ آہستہ آگے بڑھا
راہگیروں سے دامن بچاتا ہوا
حد آفاق سے جب گزرنے لگا
دیکھتا کیا ہوں
اک بے کراں بحر ہے آسماں سے زمیں تک محیط
جس میں ہر سایۂ تیز رو ڈوب کر
دھار لیتا ہے بھیگے اجالے کا روپ
میں بھی ڈوبا ہوں اس بحر میں بارہا
چاندنی کی جھلک بھی نہ پائی کہیں
جسم و جاں کی سیاہی ابھرتی رہی
اور ہر بار تاریک ماحول میں
آنکھ کھلتی رہی
چاندنی رات میں!!

نظم
چاندنی رات میں
عزیز تمنائی