EN हिंदी
چاند کے تمنائی | شیح شیری
chand ke tamannai

نظم

چاند کے تمنائی

ابن انشا

;

شہر دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں

چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی

دل گداز تاریکی
روح و جاں کو ڈستی ہے

روح و جاں میں بستی ہے
شہر دل کی گلیوں میں

تاک شب کی بیلوں پر
شبنمیں سرشکوں کی

بیقرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے

یادگار چھوڑی ہے
اتنی بات تھوڑی ہے

صد ہزار باتیں تھیں
حیلۂ شکیبائی

صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی

ان سیاہ راتوں میں
ایک بھی نہ یاد آئی

جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں

چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے

اس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں

قریۂ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا

یہ بھی ایک ساماں تھا
آج دل میں ویرانی

ابر بن کے گھر آئی
آج دل کو کیا کہیے

با وفا نہ ہرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے

آ گئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے

بن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دنیا نے

گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رتیں بھی آتیں ہیں

جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں

جی نہ چین پائے گا
اور اوب جائے گا

آہٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پہنائی

اور چاند راتوں میں
چاندنی کے شیدائی

ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے

آرزو کی گہرائی
ڈھونڈنے کو رسوائی

سرد سرد راتوں کو
زرد چاند بخشے گا

بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی

شہر دل کی گلیوں میں