EN हिंदी
چاند چمکنے لگتا ہے | شیح شیری
chand chamakne lagta hai

نظم

چاند چمکنے لگتا ہے

قیوم نظر

;

اونچے اونچے پیڑ کھڑے ہیں چیلوں کے
کہساروں کی ڈھلانوں پر جو نیچے

دوڑی جاتی ہیں
چاند سے چہرے والی ندی کے ملنے کو

چاروں جانب چھائی چپ کے پہلو سے
درد کی صورت اٹھنے والی تیز ہوا

گرد و پیش سے بے پروا
اپنی رو ایک ہی لے میں گاتی ہے

اس کی یہ بیگانہ روی دیوانہ ہی بناتی ہے
اک پتھر پر بیٹھا پہروں ایک ہی سمت میں تکتا ہوں

نیچے دوڑی جاتی ڈھلانیں
جیسے پلٹ کر آتی ہیں

چیلوں کے پیڑوں کے پھنگوں سے بھی اونچا جاتی ہیں
پتوں کے اب پیہم رقص کی تال بدلتی ہے

میں ہی شاید
درد کے ساز پہ اپنا راگ الاپے جاتا ہوں

جانے کب تک...
دور فلک پر چاند چمکنے لگتا ہے