تھی اک ایسی رات کہ ہم دونوں تنہا تھے
چاند بھی ہم بھی
چاند یہ بولا
دیوانے آ بات کریں کچھ
ہجر کی رات بہت بھاری ہے
میں تو کب سے سرد پڑا ہوں
اس نیلے صحرا میں یوں ہی میں صدیوں سے آوارہ ہوں
اور تنہا ہوں
دیوانے آ بات کریں کچھ
تیرے دل میں شاید اب تک کوئی دہکتا انگارہ ہے
ہجر کی ٹھنڈی راکھ کی تہ میں شاید کوئی چنگاری ہے
ہجر کی رات بہت بھاری ہے
دیوانے آ بات کریں کچھ
میں نے سوچا
میں دھرتی کا رہنے والا
یہ نیلے آکاش کا باسی
میرا اس کا میل نہیں ہے
تنہائی ہے کھیل نہیں ہے
میں نے ایک چمن میں جا کر خوشبو کو یہ بات بتائی
چاند کا بچنا اب مشکل ہے
چار طرف سے گھبرا کے اس کو مار رہی ہے پھیلی ہوئی نیلی تنہائی
خوشبو نے لی اک انگڑائی
اور یہ بولی
ہاں بس تھوڑی دیر ہوئی
شبنم کچھ اس سے ملتا جلتا
اک پیغام سا تو لائی تھی
لیکن شاعر میں کیوں جاؤں
جس کو تنہائی ڈستی ہو وہ خود آئے
میں کیوں جاؤں
آخر موج ہوا آتی ہے
اور برہنہ پا آتی ہے
میں کیا کرتا
میں لوٹ آیا
چاند جدائی کے نیلے صحرا میں اب تک آوارہ تھا
اور تنہا تھا
میری جانب دیکھ رہا تھا
تب میں نے دو پنکھ لگائے
کوئی نہیں جاتا تو نہ جائے میں جاتا ہوں
چاند اکیلا ڈر جائے گا
مر جائے گا
نیچے اب اک چاندنی کی گہری کھائی ہے
آوازوں کا اک جنگل ہے
اور اک دشت تنہائی ہے
اک صحرائے رسوائی ہے
میرے تھکتے بازو میں اور چاند میں شاید دوری اب بھی اتنی ہی ہے
چاند ابھی تک دور ہے مجھ سے
اور ابھی تک
میری جانب دیکھ رہا ہے
اور کہتا ہے
دیوانے آ بات کریں کچھ
ہجر کی رات بہت بھاری ہے
تیرے دل میں شاید اب تک شوق کی کوئی چنگاری ہے
نظم
چاند اور چکور
راہی معصوم رضا