EN हिंदी
اپنی ذات کی چوری | شیح شیری
apni zat ki chori

نظم

اپنی ذات کی چوری

یوسف کامران

;

کل شام نہر کی پٹری کے ساتھ ساتھ
میں اپنے ناتواں کندھوں پر

ایک شکستہ بوری اٹھائے جا رہا تھا
کہ چیخ و پکار شروع ہوئی

پکڑو پکڑو قاتل قاتل
نہر پر متعین پولیس چوکی کے مستعد عملے نے

سنگینوں سے میرا تعاقب کیا
میں اپنی تمام تر قوت سے بھاگنے کے باوجود

چند ہی لمحوں میں ان کی آہنی گرفت میں تھا
پولیس چوکی میں سوالوں کی بوچھاڑ سے

میری قوت گویائی جواب دے گئی
ایک مکروہ صورت مونچھوں والا باوردی شخص

وحشت ناک آنکھوں سے عملے کی طرف دیکھتے ہوئے
اپنی شدید کرخت آواز میں چیخا

بوری کا منہ کھولو
سارا عملہ ششدر رہ گیا

کہ بوری میں لپٹی ہوئی لاش میری ہی تھی
اور میں چپ سادھے اسے تک رہا تھا