ایک امنگ سے
تنی ہوئی اک پراسرار گلی
پتی پتی آگ لیے جاتی ہے۔۔۔
یہ سرکش خون فروش
اپنے برش کی جنبش سے
میلی صبح میں
سرخ رنگ بھر دے گی۔۔۔
آج نمو کے نیلے زہر سے
بھری ہوئی بیٹھی ہے۔۔۔
اوس میں تر کوئی بے گھر تتلی
نیند پیڑ کی خواب شاخ پر
پیلے دھانی اندیشوں کی
دھنک پہن کے سوتی ہے۔۔۔۔۔۔
اس کہرے میں
وہ جادو گر بیربہوٹی کرن دکھائی دے
جو اس کے مجروح پروں سے
شبنم کی زنجیر توڑ کے
اسے رہائی دے
نرم گھاس میں ہوا اڑے
جو مٹی میں بند مہک
اپنے ریزر سے کاٹ کاٹ کے
دھرتی سے آزاد کرے
منظروں کا صید میں
ایک اپنے کیمرے میں قید میں
نظم
کیمرا
ساقی فاروقی