یہ کوئی طریقہ ہے طنز یوں نہیں کرتے شادؔ عارفی صاحب
آپ جیسے دل والے اس طرح نہیں مرتے شادؔ عارفی صاحب
باغباں کی سازش سے پھول توڑ کر گلچیں خار میں پروئیں گے
نام لے کے طوفاں کا ناخدا سفینوں کو ریت میں ڈبوئیں گے
آپ کی تمنا تھی جیل جا کے مرنے کی بھول ہو گئی شاید
لوٹتی رہی پیہم ساٹھ سال جو دنیا یوں نہ بخشئے اس کو
ماں کی موت پر اپنا جو مکان بیچا تھا یاد کیجئے اس کو
شادؔ عارفی صاحب آپ کو تو دنیا سے انتقام لینا ہے
سوچیے زمانے نے آپ کو دیا کیا ہے آپ سے لیا کیا ہے
فکر و فن کے بدلے میں تلخیاں عطا کی ہیں جس سماج نے قبلہ
پرخلوص سینے پر برچھیاں چلائی ہیں جس سماج نے قبلہ
آپ کی خموشی پر وہ سماج ہنستا ہے دیکھ لیجئے مڑ کر
پھر کوئی نئی پھبتی طنز کا کوئی نشتر وار کیجئے مڑ کر
بزدلی نہ ہوگی کیا زندگی کے مجرم کو یوں معاف کر دینا
موت کا تو مطلب ہے ظلم کے لیے راہیں اور صاف کر دینا
خیر ہم سمجھتے ہیں موت سے نہیں ڈرتے شادؔ عارفی صاحب
یہ بھی طنز ہی ہوگا مر کے بھی نہیں مرتے شادؔ عارفی صاحب

نظم
بزدلی
مظفر حنفی