EN हिंदी
بوڑھی کہانی | شیح شیری
buDhi kahani

نظم

بوڑھی کہانی

کمار پاشی

;

جنت کی اجلی چمکیلی دھوپ میں تپ کر
میں ہر بار نکھر جاتا ہوں

اور دھرتی پر
سونے کا اک گرم بدن لے کر آتا ہوں

اس دھرتی کا ذرہ ذرہ
میرے قدموں کی لذت کو پہچانے ہے

چاند کے چہرے پر یہ دھبہ
میرے ماضی کا شاہد ہے

یہ بوڑھی کمزور ہوائیں
اپنی آنکھیں کھو بیٹھی ہیں

پھر بھی مجھ کو چھو کر یاد دلاتی ہیں کچھ بیتی باتیں
اور کہتی ہیں

تم وہ ہو جو ڈیڑھ قدم میں
ساری پرتھوی، ساتوں ساگر

لانگھ گئے تھے