EN हिंदी
بوڑھا وقت ہمارا استقبال کرتا ہے | شیح شیری
buDha waqt hamara istiqbaal karta hai

نظم

بوڑھا وقت ہمارا استقبال کرتا ہے

قاسم یعقوب

;

عرشۂ خاک سے، میں نے ہاتھوں میں مٹی بھری
اور ہوا میں اچھالی

بہت دور تک خاک اڑتی گئی
دیر تک میں نے بے معنی نظارے کو کائناتی حوالوں سے ماپا

کبھی طول اور عرض میں اس کو رکھا
ابھرے پپوٹوں،

کبھی بند آنکھوں سے دیکھا!
وہ سوچا جو دیکھا نہیں جا سکا!

ہوا خاک تھی یا ہوا میں تھی خاک۔۔۔!
گرد کی مٹھیوں سے ہوا چھن رہی تھی

عرشۂ خاک کی گود۔۔۔ پھر بھر رہی تھی
آب وقت آسماں کی طرف بڑھنے کی کوششوں میں

زمیں کے پیالے میں گرتا گیا
کوئی آہستہ سے بوڑھا ہوتا گیا

سوچتے سوچتے
کپکپی سی مرے ہونٹوں کے نقرئی دائروں میں اترتی گئی

امر بیل کی طرح ہاتھوں سے رعشہ لپٹنے لگا
رفتہ رفتہ۔۔۔ سمٹنے لگے۔۔۔ عرشۂ خاک پر

منتشر گرد، میں اور ہوا