اثر انوکھا ہوا
جب آستیں کا بٹن گر کے کھو گیا جاناں
تمہاری یاد کا سینہ ہزار چاک ہوا
وہ ایک نور کا دھاگہ دھیان میں آیا
کسا ہوا سا کوئی تار ساز کا جیسے
لگا کے پیچ کئی دل کو باندھنے کی ادا
گلابی ہونٹوں سے ہو کر گزرنے والی ڈور
تمہارے دانتوں سے کیا پٹ سے ٹوٹ جاتی تھی
کشادہ آنکھوں کے گوشوں سے سر ابلتے تھے
اب ایسے بانسری پہ کوئی لب نہیں رکھتا
تمہاری طرح بٹن اور کون ٹانکے گا
بس ایک سانس کی سوئی ہے زخم سیتی ہے
نظم
بٹن
ف س اعجاز