اک فسوں کار بت تراش ہوں میں
زندگی کی طویل راتوں کو
بار ہالے کے تیشۂ افکار
بت تراشے ہیں سینکڑوں میں نے
ترے سانچے میں ڈھالنے کے لیے
چاند سے نور مرمریں لے کر
تیرا سیمیں بدن تراش لیا
مہر سے تاب آتشیں لے کر
ترے رنگیں لبوں کا روپ دیا
لے کے توبہ کی عنبریں سائے
تیری زلفوں کے بال مہکائے
گھوم کر خلد کی فضاؤں میں
سرمدی سر خوشی اٹھا لایا
رنگ بھر کر تری اداؤں میں
ابدی راحتوں کو شرمایا
لے کے سیمائے حور کی تقدیس
چھین کر میں نے قدسیوں کا وقار
زندگی دی تری نگاہوں کو
اور بنائیں تری حسیں آنکھیں
نظر بد کہیں نہ لگ جائے
میں نے تاروں سے چھین لیں آنکھیں
پھر بھی میں تجھ سے دور دور رہا
پھر بھی تجھ سے نہ مل سکیں آنکھیں
یوں تو اک کہنہ بت تراش ہوں میں
زندگی کی طویل راتوں کو
بار ہالے کے تیشۂ افکار
بت تراشے ہیں سینکڑوں میں نے
بت تراشے ہیں توڑ ڈالے ہیں
نظم
بت تراش
صوفی تبسم