EN हिंदी
بت ساز | شیح شیری
but-saz

نظم

بت ساز

اختر عثمان

;

میں نے کیا سوچ کے صحرا میں دکاں کھولی ہے
لب لعلیں کے تصور میں منگائے یاقوت

نجم لایا ہوں کہ ترتیب ہو سلک دنداں
مہ یک رو بھی تو درکار ہے ابرو کے لئے

دور افق پار سے تھوڑی سی شفق لایا ہوں
خون میں گوندھ کے بھٹی میں تپاؤں گا اسے

تب کہیں سرخیٔ رخسار ہویدا ہوگی
میں نے تیار کیا خاک کواکب سے خمیر

کچھ نہیں کچھ بھی نہیں آج عزا خانے میں
آج خس خانۂ خواہش میں فقط راکھ ہے راکھ

وہ کسی دست ہنر ور کا تراشا ہوا تل
کف ضو ریز کو شرماتا تھا ماہ کامل

وہ تری ساعد سیمیں کا زمرد بھی خجل
کچھ نہیں کچھ بھی نہیں آج عزا خانے میں

آج بھی سوچتا ہوں اپنے جنوں میں آ کر
میں نے کیا سوچ کے صحرا میں دکاں کھولی تھی