EN हिंदी
بقراط بہت کھاتا تھا | شیح شیری
buqraat bahut khata tha

نظم

بقراط بہت کھاتا تھا

محمد یوسف پاپا

;

ہم نے محبوب کے ایوان میں جا کر دیکھا
چین میں مصر میں ایران میں جا کر دیکھا

روس میں شام میں سوڈان میں جا کر دیکھا
اور پھر خانۂ سلطان میں جا کر دیکھا

نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
جب ہوئی خشک تو محبوب کی کاکل نے کہا

وہ جو میکے گئیں ان سے یہی بابل نے کہا
اوکھلے والوں سے جمنا کے نئے پل نے کہا

اور سنتے ہیں کہ ببو سے یہ عبدل نے کہا
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا

روٹیاں بیٹھ کے ہوٹل میں پکاتا ہے کوئی
مدرسے میں کوئی پڑھتا ہے پڑھاتا ہے کوئی

اپنی ڈھولک لیے دربار میں گاتا ہے کوئی
اور ڈفلی سر بازار بجاتا ہے کوئی

نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
تجھ کو فرصت ہی نہیں اپنے جہاں سے محبوب

تو نکلتا ہے کبھی اپنے مکاں سے محبوب
پھر یہ الہام ہوا تجھ کو کہاں سے محبوب

میں نے اکثر یہ سنا ہے تری ماں سے محبوب
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا

فاقہ کر کے نہ بڑھاپے میں جوانی ڈالو
پیٹ میں پہلے مرے کچھ تو بھوانی ڈالو

پھر گلے میں مرے الفت کی نشانی ڈالو
گھی مرے کھانے میں کچھ اور ممانی ڈالو

نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
کھانے پینے سے جو مہلت کبھی پا جاتا تھا

ہر مورخ سر تاریخ پہ فرماتا تھا
وہ ارسطو ہو کہ بقراط بہت کھاتا تھا

اور پھر رات کو اکثر یہی براتا تھا
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا