بکھر گئے ہیں ستارہ بن کے
اس ایک سورج کے کتنے ٹکڑے
ہر اک ٹکڑا الگ جہاں ہے
سرحد کے بندھن میں آسماں ہے
زمین کا تو وجود کیا ہے
ہر اک کن پہ خدا لکھا ہے
ہر اک خدا کا ہے اپنا شجرہ
ہر اک شجرے کی اپنی دنیا
ہر اک دنیا کے اپنے حصے
ہر اک حصہ کے اپنے رشتے
ہر اک رشتے میں سو دیواریں
ہر ایک دیوار میں دراریں
درار میں ہیں نئے جزیرے
ہر اک جزیرے کے اپنے ورثے
ہر اک ورثے کے غم اپنے اپنے
ہر اک اپنے کے قصے اپنے
محل جو تہذیب و ارتقا کے ماضی پہ بن رہے ہیں
ہے ان کی بنیاد کتنی گہری میں ان کی گہرائی جانتا ہوں
نظم
بنیادیں
اشوک لال