EN हिंदी
بلبل و پروانہ | شیح شیری
bulbul o parwana

نظم

بلبل و پروانہ

سرور جہاں آبادی

;

گرا رہا ہے ترا شوق شمع پر تجھ کو
مجھے یہ ڈر ہے نہ پہنچے کہیں ضرر تجھ کو

فروغ شعلہ کہاں اور فروغ حسن کہاں
ہزار حیف کہ اتنی نہیں خبر تجھ کو

تڑپ تڑپ کے جو بے اختیار کرتا ہے
نہیں ہے آگ کے شعلہ سے آہ ڈر تجھ کو

یہ ننھے ننھے پر و بال یہ ستم کی تپش
ملا ہے آہ قیامت کا کیا جگر تجھ کو

قریب شمع کے آ کر جو تھرتھراتا ہے
نہیں ہے جان کے جانے کا غم مگر تجھ کو

ملے گی خاک بھی ڈھونڈے نہ تیری محفل میں
صبا اڑائے پھرے گی دم سحر تجھ کو

سمجھ نہ شمع کو دل سوز عافیت دشمن
جلا کے آہ رہے گی یہ مشت پر تجھ کو

نہیں ہے تو ابھی سوز و گداز کے قابل
نہیں ہے عشق کی عرض و نیاز کے قابل

تپش یہ بزم میں فانوس پر نہیں اچھی
کہ آگ لاگ کی او بے خبر نہیں اچھی

کڑی ہے آنچ محبت کی شمع محفل سے
لگاوٹیں ارے تفتہ جگر نہیں اچھی

تڑپ تڑپ کے نہ دیوانہ وار شمع پہ گر
تپش یہ شوق کی، او مشت پر نہیں اچھی

یہ جاں گدازئ سوز وفا سر محفل
کہیں نہ ہو ترے جی کا ضرر نہیں اچھی

لڑا نہ شمع سے آنکھیں کہ ہے عدو تیری
تری نگاہ محبت اثر نہیں اچھی

یہ ننھے ننھے پروں کی تڑپ یہ بیتابی
حریف شوخئ برق نظر نہیں اچھی

یہ پر سمیٹ کے فانوس پر ترا گرنا
یہ بے خودی ارے شوریدہ سر نہیں اچھی

چمن میں چل کہ دکھاؤں بہار شاہد گل
نظر فریب ہیں نقش و نگار شاہد گل

میں بو الہوس نہیں سمجھا ہے تو نے کیا مجھ کو
پسند شاہد گل کی نہیں ادا مجھ کو

فراق گل میں میں منت کش فغاں ہوں دریغ
یہ داغ سوز جدائی نہ دے خدا مجھ کو

دل گداختہ لے کر ازل سے آیا ہوں
بنایا بزم میں ہے سوز آشنا مجھ کو

جلے وہ بزم میں چپ چاپ اور میں نہ جلوں
بعید عشق سے ہے ہو غم فنا مجھ کو

تری نگاہ میں جاں سوز ہے جو اے بلبل
وہ آہ آگ کا شعلہ ہے جاں فزا مجھ کو

کھلا ہے تجھ پہ ابھی آہ راز عشق کہاں
تو بو الہوس ہے، تجھے امتیاز عشق کہاں