EN हिंदी
بلاوا | شیح شیری
bulawa

نظم

بلاوا

اختر الایمان

;

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں
ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو کھیل رہے ہیں میرے ارماں

میرے سپنے میرے آنسو ان کی چھلنی چھاؤں میں جیسے
دھول میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے!

دن کے اجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سے کوئی
مجھ کو آوازیں دیتا ہے آؤ آؤ آؤ آؤ

میری روح کی جوالا مجھ کو پھونک رہی ہے دھیرے دھیرے
میری آگ بھڑک اٹھی ہے کوئی بجھاؤ کوئی بجھاؤ

میں بھٹکا بھٹکا پھرتا ہوں کھوج میں تیری جس نے مجھ کو
کتنی بار پکارا لیکن ڈھونڈ نہ پایا اب تک تجھ کو

میرے سنگی میرے ساتھی تیرے کارن چھوٹ گئے ہیں
تیرے کارن جگ سے میرے کتنے ناطے ٹوٹ گئے ہیں

میں ہوں ایسا پات ہوا میں پیڑ سے جو ٹوٹے اور سوچے
دھرتی میری گور ہے یا گھر یہ نیلا آکاش جو سر پر

پھیلا پھیلا ہے اور اس کے سورج چاند ستارے مل کر
میرا دیپ جلا بھی دیں گے یا سب کے سب روپ دکھا کر

ایک اک کر کے کھو جائیں گے جیسے میرے آنسو اکثر
پلکوں پر تھرا تھرا کر تاریکی میں کھو جاتے ہیں

جیسے بالک مانگ مانگ کر نئے کھلونے سو جاتے ہیں!