EN हिंदी
بڑھاپے کی چوٹی | شیح شیری
buDhape ki choTi

نظم

بڑھاپے کی چوٹی

درشکا وسانی

;

عمر اور راستے کٹتے چلے گئے
ابھی ابھی سانسیں سنبھلی تھی

نہ جانے کب حوصلے بھی سنبھلتے چلے گئے
شروعاتی یہ راستے سیدھے سرل صاف ہوا کرتے تھے

اونچائی پہ بڑھتے ہی پتھریلے ہوئے کانٹوں سے گرست
ہاں کبھی کوئی جھرنا مل جاتا تھا

پیڑ بھی چھاؤں لے کر میری مدد کو آتے تھے
وہ جھرنے وہ چھاؤں مگر ساتھ نہ چل پاتے تھے

وقت تھا جو ساتھ چلا میرے
ایک روز وہ بھی چلا گیا تجربے کی پیٹی دے کر

اب اسے بھی اٹھائے چلنا ہے سنبھالے رکھنا ہے
سانسوں کی طرح حوصلوں کی طرح

راستے میں ملے گا وو پھر سے
اور مانگے گا مجھ سے اس پیٹی میں سے کچھ

یا دے جائے گا دو چار اور بھی اٹھانے کو
وقت ملتا گیا موڑ آتے گئے کچھ لوگ بھی

بوجھ کم ہوتا پھر بڑھ بھی جاتا
راستو میں بھٹک بھی جاتا کہیں کہیں

بوجھ بھاری ہوا تھا تھکی آنکھوں کا بھی ایک بوجھ تھا
بڑھاپے کی چوٹی اب ابھی میلوں دور تھی

پر وہاں شاید سکون ہوگا
کہیں پہنچ جانے کی راحت ہوگی

چاند کی ٹھنڈک میرے قریب ہوگی
اوس چوٹی پہ پہنچ کر

تھکے ہوئے پیروں کو کنارے رکھ دوں گا
کیوں کہ وہاں سے آگے اب کچھ نہ ہوگا چلنے کو

آنکھ موندنے کی مجھے اب اجازت ہوگی