میں دکھ کا بوجھ اٹھائے
ایک مدت سے چل رہا ہوں
لگتا ہے
کسی بھی وقت میری گردن ٹوٹ جائے گی
میں سستانا چاہتا ہوں
کوئی میرا بوجھ نہیں بٹا سکتا
سب کے سر پہ
ایک وزنی ٹوکرا رکھا ہوا ہے
کوئی نفرت کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے
کسی سے محبت نہیں سنبھالی جا رہی
ہم سب مزدور ہیں
بوجھ اٹھانا ہمارا کام ہے
ہمیں
سستانے کی اجازت نہیں ملتی
بوجھ اٹھانے کی اجرت
ٹوکروں کی تبدیلی ہے

نظم
بوجھ
مصطفیٰ ارباب