دبے پاؤں چلتی چلی آئے گی
کسی گرم کونے میں چپکے سے بیٹھے گی
بلوری آنکھیں گھماتی رہے گی
کبھی ایک ہلکی جماہی بھی لے گی
دیکھتے دیکھتے جسم سے اٹھنے والی مہک
سارے کمرے میں بھر جائے گی
دیار غریباں سے آیا ہوا اک ادھیڑ عمر چوہا
جو بس رزق کی بو کو پہچانتا ہے
جو ہر وقت بیمار ہر وقت بیزار چوہیا سے تنگ آ چکا ہے
اسے دیکھ لے گا تو جی جائے گا
شوق وارفتگی طرز آمادگی
اس کو بلی کے نزدیک لے جائے گا
لمحۂ قرب میں
ساعت وصل میں
اس حسینہ کے ناخن نکل آئیں گے
اس ادھیڑ عمر چوہے سے شوخی کریں گے
اسے ہانپتا کانپتا ادھ موا چھوڑ کر
پھر سے ملبوس مخمل میں چھپ جائیں گے
نظم
بلی
زہرا نگاہ