بہت اچھلے وزیر تاب کاری وہ نہیں آئی
اندھیرے میں یہ شب تنہا گزاری وہ نہیں آئی
کسی نے چار چھ دس مرتبہ کاٹا تھا گالوں پر
میں کرتا ہی رہا مچھر شماری وہ نہیں آئی
ہمارے عشق کی تجدید میں تھا واپڈا حائل
اندھیرے ہی میں زلف اس کی سنواری وہ نہیں آئی
ہمارے ملک میں نور عدالت عام کرنے کو
بہت گرجا تھا عدل افتخاری وہ نہیں آئی
ذرا سی دیر کو باد بہاری آئی تھی لیکن
تڑپ اٹھے تھے گرمی سے بہاری وہ نہیں آئی
محلے سے تو سب آئے تھے شمع آرزو لے کر
حکومت کا تھا شاید پاؤں بھاری وہ نہیں آئی
کیا سنتوش نے انکار جب پنکھے کو جھلنے سے
تو چھت پر سو گئی مینا کماری وہ نہیں آئی
ہماری بے بسی کا اب تماشہ دیکھتے کیا ہو
ستارو تم تو سو جاؤ ہماری وہ نہیں آئی
نظم
بجلی کے انتظار میں
خالد عرفان