کیا حال کہیں اس موسم کا
جب جنس جوانی سستی تھی
جس پھول کو چومو کھلتا تھا
جس شے کو دیکھو ہنستی تھی
جینا سچا جینا تھا
ہستی عین ہستی تھی
افسانہ جادو افسوں تھا
غفلت نیندیں مستی تھی
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ
جب دل کی بستی بستی تھی
غفلت نیندیں ہستی تھی
آنکھیں کیا پیمانے تھے
ہر روز جوانی بکتی تھی
ہر شام و سحر بیعانے تھے
ہر خار میں اک بت خانہ تھا
ہر پھول میں سو مے خانے تھے
کالی کالی زلفیں تھیں
گورے گورے شانے تھے
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ
جب دل کی بستی بستی تھی
گورے گورے شانے تھے
ہلکی پھلکی بانہیں تھیں
ہر گام پہ خلوت خانے تھے
ہر موڑ پہ عشرت گاہیں تھیں
طغیان خوشی کے آنسو تھے
تکمیل طرب کی آہیں تھیں
عشوے چہلیں غمزے تھے
پلتیں خوشیاں چاہیں تھیں
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ
جب دل کی بستی بستی تھی
نظم
بیتے ہوئے دن
جوشؔ ملیح آبادی